صدر ممنون اور فضل الرحمان کے بعد عمران خان کی بنوں آمد.کیا تبدیلی آگئی ہے؟


تحریر: فرمان نواز
صدر ممنون حسین کے بعد عمران خان کا بنوں یونیورسٹی کا دورہ یہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف بنوں میں جمعیت علمائے اسلام کو اگلے الیکشن میں ٹف ٹائم دینے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ظاہر ہے جب عمران خان نے بڑے میاں کو نہیں بخشا تو ان کے دوستوں کو کب معاف کرنے والا ہے۔ایم ایم اے کی بحالی کا فیصلہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
بنوں یونیورسٹی میں جوش خطابت میں عمران خان وزیراعظم بننے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں ۔ کچھ دن پہلے اکرم خان درانی بھی مولانا صاحب کو وزیراعظم کے منصب تک پہنچانے کا نعرہ لگا چکے ہیں۔پنجاب کے عمران خان کے وزیراعظم بننے کے خواب کا منطق تو سمجھ میں آتا ہے لیکن مولانا صاحب وزیراعظم کے منصب تک کیسے پہنچے گے یہ 100ملین ڈالر کا سوال معلوم ہوتا ہے۔
وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے پورے خیبر پختون خوا میں ضلعی سطح پر خواتین کے حقوق کی حفاظت کیلئے کمیٹیاں بنانے کی منظوری دی ہے اور بنوں میں دارالامان بھی تعمیر کیا جائے گا۔ بنوں یونیورسٹی میں کالج کی طالبات سے عمران خان کا خطاب جنوبی اضلاع میں ایک نئی روایت ہے۔جہاں خواتین تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ سیاسی باشعور ہوں۔اسلام آباد کے دھرنے میں جو واقعات پیش آئے وہ اسلام آباد کے لوگوں کا مزاج ہو سکتا ہے ۔ بنوں پر وہ چھاپ نہ لگائی جائے۔ اور اگر کسی کو شک ہے کہ بنوں میں بھی یہی ہو سکتا ہے تو پھر تو بنوں یونیورسٹی کو بند کر دینا چاہئے جہاں لڑکے اور لڑکیاں تعلیم حاصل کر ر ہے ہیں۔ کیونکہ جو مزاج انسان کا ہو تو پھر کیا دھرنا اور کیا پڑھائی۔
یار لوگوں نے اعتراض کیاکہ کالجز کی لڑکیاں بانکے میاں کے خطاب کیلئے کیوں بلائی گئیں تھیں۔یہ تو پشتون روایات کے خلاف ہے۔لیکن سوال تو یہ ہے کہ پشتون روایات ہیں کیا؟ کیایہ پشتون روایات ہیں کہ خودکش حملوں میں مرنے والوں کے جنازے میں شرکت نہ کی جائے؟اور نہ ہی کوئی بیان جاری کیا جائے؟ کیا یہ بھی پشتون روایات ہیں کہ ریحام خان کا نام سرعام اچھالا جائے؟
عمران خان میرا آئیدیل نہیں ۔ جو شخص چینی کوریڈور کو پختونخوا ہ سے پنجاب کی طرف موڑنے کے خلاف نہیں اُٹھتا وہ میرا آئیڈیل کیسے ہو سکتا ہے لیکن یہاں میرا مقصد ایک نئے رجحان کی طرف بنوں کے لوگوں کی توجہ مبذول کروانی ہے۔
خواتین ہمارے سماج کا تقریباََ پچاس فیصد ہیں ۔ ان کا ووٹ الیکشن کے نتائج کو بدل سکتا ہے۔ تعلیم کے حصول اور سیاسی شعور سے خواتین کے دہلیز سے باہر آنے کے مسئلے کو نہ جوڑا جائے۔یہ بہت بہتر ہوگا کہ بنوں میں خواتین کے سیاسی جلسے پردے کا انتظام کر کے منعقد کئے جائیں۔یہ کام لڑکیوں کے سکولوں کو استعمال کر کے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ خواتین ہی مہمان خصوصی ہوں اور خواتین سیاسی لیڈروں کو سننے بنوں کی خواتین کو مدعو کیا جائے۔بنوں کے سیاسی منظرنامے اگر خواتین کی سمجھ میں آ جائیں تو اس میں کیا خرابی ہے؟ کیا مردوں کو یہ ڈر ہے کہ پھر خواتین سیاسی مسائل پر بھی گھر میں ماحول گرم رکھیں گی؟ دوسروں کی غیبتیں کرنے سے سیاسی گفتگو بہتر نہیں ہوگی؟ یا ہمیں یہ ڈر ہے کہ ہم مرد حضرات سیاسی مباحثوں میں مات نہ کھا جائیں؟ یا ہمیں یہ ڈر ہے کہ کہیں اس سے خواتین بے راہ روی کا شکار نہ ہو جائیں؟ یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ تعلیم یافتہ خواتین مردوں کے جھانسے میں مشکل سے ہی پھنستی ہیں۔تعلیم یافتہ اور سیاسی باشعور عورت جاہلوں سے کہیں بہتر ہے۔ قرآن پاک کی آیت ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں۔ یہ آیت خواتین پر بھی اتنی ہی منطبق آتی ہے جتنی مردوں پر۔
جب بلدیاتی انتخابات میں خواتین نہ صرف حصہ لے سکتی ہیں بلکہ مردوں کے ساتھ اسمبلی میں بھی بیٹھ سکتی ہیں تو عمران خان کا خطاب یا لیکچرسننے میں کیا قباحت ہے۔یہ لڑکیاں بنوں یونیورسٹی گئی تھی کسی میلے میں نہیں۔ہاں یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ سرکاری خرچے پر ان طالبات کو سیاسی مقصد کیلئے مدعو کیا گیا۔لیکن اگر نئی نسل کی خواتین میں سیاسی شعور نہیں آئے گا تو قوم کی حالت کیسے بدلے گی۔اگر خواتین کو سیاسی شعور نہیں دیں گے تو اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیسے کریں گی۔اگر کوئی کہے کہ گھر کے مرد خواتین کو سیاسی شعور دینے کیلئے کافی ہیں تو یہاں ان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ سیاسی شعور کی یہ حالت ہے کہ انفرادی کام کے بدلے ووٹ کا استعمال کونسا سیاسی شعور ہے؟
اگر خواتین کو سیاسی شعور کی ضرورت نہیں تو بنوں میں خواتین کا محکمہ تعلیم کی اسامیوں کیلئے ایپلائی کرنا بھی ضروری نہیں کیونکہ مرد ہیں جو کمانے کیلئے۔ بنوں کے مردانہ ہسپتالوں میں خواتین نرس کی کیا ضرورت ہے ؟
میں عمران خان کی بات نہیں کر رہا بلکہ خواتین کو سیاسی شعور دینے کی حمایت کر رہا ہوں جو کہ اکثر مرد حضرات کو بھی نصیب نہیں ہوتا اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ جس گود میں اس کی پرورش ہوئی اس کو خود سیاست کی سمجھ بوجھ نہیں تھی۔آج تو عرفان دُرانی نے بھی خواتین کے ووٹ بنوانے کی بات کی ہے۔ ویسے اگر یہی طالبات دُرانی صاحب کا خطاب سننے مدعو کی جاتیں تو کیا پھر بھی مخالفت کی جاتی؟ اور کوئی یہ کیوں نہیں دیکھتا کہ یہ لڑکیاں اپنے والدین کی اجازت سے وہاں گئی تھیں۔کسی کو بزور نہیں لے جایا گیا۔ہمیں اعتراض طالبات کے وہاں جانے پر ہے یا عمران خان کا خطاب سننے پر؟
ویسے عمران خان کبھی بنوں نہ آتا اگر یہاں اکرم دُرانی جیسا سیاست دان نہ ہوتا۔ان بڑوں کی لڑائی میں اگر بنوں کا کچھ فائدہ ہوتا ہے تو یہ کیا بہتر نہیں ہے؟
جن لوگوں کو میرے موقف سے اختلاف ہے وہ اپنے خیالات ایک دو پیراگراف کی شکل میں لکھ کر شائع کرنے کیلئے بھیج سکتے ہیں۔ اگر کمپیوٹر پر لکھائی کرنے میں مشکل ہے تو کاغذ پر لکھ کر فیس بُک پر میسج کر دیں۔

Leave a comment